۔سوال نمبر D97:۔ خُدا مر بھی سکتا ہے!! جب صلیب پر مسیح مصلوب کی موت واقع ہو گئی، تو اس کے ساتھ اس کے وُجُود کا وُہ حصہ جو خُدا تھا کیا وُہ بھی م رگیا؟

سوال نمبر97

Foto di NoName_13 da Pixabay

خُدا مر بھی سکتا ہے!! جب صلیب پر مسیح مصلوب کی موت واقع ہو گئی، تو اس کے ساتھ اس کے وُجُود کا وُہ حصہ جو خُدا تھا کیا وُہ بھی م رگیا؟


جواب:۔ خُدا۔۔۔۔۔۔ اُس کی تعریف مُقدّس بائبل میں یُوں کی گئی ہے کہ وُہ ۔۔۔۔۔۔ زندہ خُدا ہے۔ وُہ تو زندگی کا خالق ہے۔ زندگی اُس کی مرہُونِ مِنّت ہے۔

”تھوڑی ہی دیر میں شریر نابود ہو جائے گا تُو اُس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا مگر وہ نہیں ہو گا”۔

مزمور۔۔۔۔۔۔10:36

خُدا موت پر غالب ہے،مغلُوب نہیں۔ بس وہی ہے، صرف وہی جو غیر فانی ہے۔

”بقا فقط اُسی کو ہے اور وُہ اُس نور میں رہتا ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اُسے کِسی آدمی نے دیکھا اور نہ دیکھ سکتا ہے۔ 

اس کی عزّت اور سلطنت ابدی ہو! آمین!”۔

1۔ تیموتاؤس۔۔۔۔۔۔16:6

خُدا کی ذاتِ پاک کو فنا نہیں، ہرگز نہیں۔ وُہ ہمیشہ زندہ اور قائم ہے۔

تمام مسیحیوں کا اس بات پر ایمانِ صمیم ہے کہ خُدا ے ہمیشہ زندہ و باقی نے خُداوند یسُّوع پاک میں یہ حقیقت سب پر ظاہر کی کہ وُہ ہم تمام فانی انسانوں سے لازوال، ابدی محبت کرتا ہے۔ وہ مصیبت و ابتلا کے انتہائی سخت وقتوں میں بھی ہم دُکھی انسانوں کے قریب رہتا ہے، شہ رگ سے بھی زیادہ قریب۔ وُہ ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ صلیب پر خُداوند یسُّوع مسیح نے نوعِ بشر کے لیے اپنی زندگی دے دی اور وُہ مر گیا جو اِبنِ آدم تھا۔ مصلُوب یسُّوع پاک میں خُدا موجُود تھا، زندہ، اور وُہ اُس کے درد اور اس کی محبت میں اس کی موت کی اذیّت خود بھی سہہ رہاتھا۔ چناں چہ وہ مر گیا، مگر بطور خُدا زندہ رہا۔ اس کی ہستی کے امتیازات و صفات بہ حیثیتِ خُدا قائم و دائم تھے۔ اس کی خُدائی کو ”دی اینڈ” نہ لگ گیا۔اس نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور اس کی خُدائی نے بھی دائم قائم، پایندہ رہنا ہے۔ 100فی صد آدمی مرا تھا، مُقدّس خُداوند یسُّوع المسیح جو 100فی صد خدا ہے، زندہ تھا۔ وُہ لافانی ہے۔ جب خُداوند یسُّوع اقدس اذیت میں تھا تو اُس کا کرب خُدا بھی محسوس کر رہا تھا۔ اُس کی جانکنی کا آزار خُدا کا آزار تھا، اُس نے اُسے اُٹھا لیا، اوپر عالمِ بالا میں لے گیا جہاں ایک نئی لافانی زندگی اُس نے اوڑھ لی۔موت ہی اس کی زندگی ثابت ہوئی، ابدی زندگی۔

ایک تقابلی جائزہ:

مائیں بچّوں سے کتنا پیار کرتی ہیں، اُن پر جان چھڑکتی ہیں، وارے وارے جاتی ہیں، صدقے قربان ہوتی ہیں مگر۔۔۔۔۔۔ زندہ رہتی ہیں اور اپنے بچّوں کی نگہداشت و پرداخت میں جُتی رہتی ہیں۔ بچّے سے اَنِمٹ پیار کرنے والی ماں کا اکلوتا بیٹا، سخت بیماری جھیل جھیل کے جب ایک دِن درد سے کراہتا تڑپتا مر جاتا ہے تو اُس کے درد، اُس کی تکلیف، اس کے کرب سے اتنا ہی ماں بھی گذر رہی تھی جتنا اُس کا بیٹا، اور قریب المرگ بیٹے کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی ماں بھی تو زندہ در گور ہوگئی تھی۔ اس کی کائنات لُٹ چکی تھی، وہ بھی مر ہی گئی۔ بیٹے کے غم میں نڈھال ماں، مر چکی ہوتی ہے گو طبعی طور وُہ زندہ ہوتی ہے۔ یسُّوع پاک بھی تو کِسی کا بیٹا تھا، محبوب بیٹا!! اس ماں کی طرح جس کا بیٹا مر گیا اور اس نے بیٹے کی موت اپنی موت سمجھی۔ خُداوند یسُّوع مسیح پاک موت کے جس تجربے سے بطورِ انسان گذرا، بطورِ خُدا اس تجربے کے غم و اندوہ اس کی ہستی پر بھی اثر انداز ہوئے۔ بیٹے کی موت، پیارے بیٹے کی موت نے اُسے بھی مار دیا۔ خُدا کئی ماؤں سے بڑھ کر ماں ہے! اور محبت والا باپ ہونے میں بھی کوئی اس کا ہمسر نہیں۔

”اور رُوحُ القدس جسمانی صورت میں مانندِ کبُوتر ہے۔تجھ سے مَیں خوش ہُوں”۔

مُقدّس لُوقا۔۔۔۔۔۔22:3

چناں چہ اس کی وُہ ذاتِ بابرکات جو خُدا والی تھی برقرار رہی، اس کا انسان والا وجود ختم ہُوا، ہستیِ اُلُوہی باقی رہی۔

ماخذ: ایرہارڈ ڈکنُٹس

ایس جے (سوسائٹی آف جیزز)

(Erhard Kunz SJ)

Es freut mich, dass Sie die Texte unserer Webseite https://antwortenanmuslime.de auf www.amicidilazzaro veröffentlichen wollen und erlauben es gerne.
P. Christian W. Troll SJ (30/4/22)

سُوال نمبر78 – بائبل مُقدّس میں بیان ہُوا ہے

اسلام سے کیتھولک میں درمانتریت کے لئے سیفٹی کی تجاویز